تحرير و عکاسی : سردار سعید احمد
بارن الو barn owl اس کا سائنسی نام Tytodeae ہے اس کی ٹانگیں لمبی اور چہرہ دل کی شکل کا ہوتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی آنکھوں اور دل نما چہرے کی وجہ سے اس کی پہچان بہت آسان ہے۔ اس کے پروں اور سر پر بھورے رنگ کے دھبّے ہوتے ہیں۔ دنیا میں اس نسل کی 16 اور پاکستان میں ایک ہی قسم پائی جاتی ہے۔
اُلّو ایک بہت معصوم اور انسان دوست شکاری پرنده ہے اور عام پالتو پرندوں کی طرح گھروں میں پالا بھی جاسکتا ہے مگر جہالت کی وجہ سے بدنامی کا شکار ہے۔ اکثر الو کا نام اس وقت لیا جاتا ہے جب کسی کو کم عقل یا بےوقوف کہنا مقصود ہو۔ الّو کے بارے جس قدر منفی تاثرات قائم ہیں شاید ہی کسی اور پرندے یا جانور کے لیے قائم ہوں یہاں تک کہ اسے نحوست کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔
یہ اپنا شکار رات کے وقت کرتاہے جبکہ دن میں سوتا ہے۔ اس کی خوراک میں چھوٹے جانور ، پرندے اور رینگنے والے جاندار شامل ہیں۔الو کی خصوصیت میں اس کی خاموش اڑان شامل ہے یعنی اڑتے وقت دوسرے پرندوں کی طرح ان کے پروں کی آواز سنائی نہیں دیتی جس کی مدر سے یہ آسانی کے ساتھ اپنے شکار پر حملہ کرکے اپنے نوکیلے پنجوں اور چونچ سے اسے چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ الو کو دن کے وقت کچھ دکھائی نہیں دیتا جبکہ اس کی کچھ اقسام دن کے وقت انسان سے بھی زیادہ تیز دیکھ سکتی ہیں مگر رات کے وقت الو کو دن سے بھی زیادہ اچھا دکھائی دیتا ہے۔ الو اپنی آنکھوں کو گھمانے سے معذور اور صرف سامنے دیکھ سکتا ہے لیکن 270 ڈگری تک اپنی گردن گھما کر ایک ہی جگہ بیٹھ کر چاروں اطراف دیکھنے کی صلاحيت رکھتا ہے ۔
الو اپنے مسکن پرانے درختوں ، عمارتوں اور سنسان جگہوں پر بناتے ہیں اور زیادہ تر خاندان کی صورت میں رہتے ہیں۔
اردو لغت میں الو سے مطلق کچھ محاورے خصوصی شہرت رکھتے ہیں مثلاً اپنا الّو سیدھا کرنا۔الّو بنانا۔ الّو بننا۔الّو کا پٹھا ۔الّو کہیں کا اور ’الّو کی طرح دیدے نچانا وغیرہ شامل ہیں۔
افریقہ میں الو کو موت بیماری اور بدبختی کی علامت جبکہ جاپان میں اسے خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔
ہندو معاشرے میں اسے لکشمی دیوی کی سواری سمجھا جاتا ہے اور بدقسمتی سے مسلمان بھی اسے ایک منحوس پرندہ سمجھتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ ہمارا مذہب ہمیں کہیں بھی ایسی توہم پرستی کی تعليم نہیں دیتا ۔